وہی درد کا ساگر ہے ، وہی غم کا بھنور ہے
وہی ناؤ شکستہ ، وہی دشوار سفر ہے
گزری ہے شب رنج و فغاں پر وہی گریا
یادوں کا کفن اوڑھے ہوئے میری سحر ہے
ہنستے ہوئے آنکھوں سے چھلکنے لگے آنسو
آہوں کا مری ان پہ ہوا کتنا اثر ہے
بس دور سے ہی دیکھ کے وہ چل دیے واپس
کہتے تھے ترے حال کی سب ہم کو خبر ہے
اک دوجے سے کٹ کے جہاں افراد مکیں ہوں
بس ایک سرائے کی طرح ہوتا وہ گھر ہے
پیسوں کے لیے اپنی انا دفن بھی کر دیں
ہاں نفس پہ اک بوجھ سا رہتا تو مگر ہے
میں ذکر محمد پہ بہت رویا تھا اک بار ( صلی الله علیہ و سلم )
جو کچھ بھی مجھے آج ملا اس کا اجر ہے
درویش بھی ہوں ،عشق مجازی کا بھی خوگر
دنیا سے جدا عشق میں یہ میری ڈگر ہے
اب اور کہیں دل کے چراغوں کو جلائیں
رخ آج یہ بے حس سی ہواؤں کا ادھر ہے
جاں دیتے پرکھ ہوتی ہے عاشق کی وفا میں
سچا ہے وہ عاشق جو شہیدوں سا نڈر ہے
غیروں پہ کرم اور ہمیں سے ہے عداوت
زاہد یہ وفاؤں کا ملا ان سے ثمر ہے