ہوئی علالت باعثِ رخصت و تاخیر
ہم آگئے ہیں دوبارہ دلبر نہ ہو دلگیر
روکنا ممکن نہیں طوفانوں کا راستہ
کون ڈالے گا ہوا کے پاؤں میں زنجیر
عزم و جرات اور مسلسل جستجو کے بعد
عین ممکن ہے ملے ہر خواب کی تعبیر
میدانِ کربلا میں اترے لے کے ذوالفقار
اللہ ھو اکبر شان سے وہ محترم شبیر
اسلام کو زندہ کیا جیسے حسین نے
ملتی نہیں جہان میں اس کی کوئی نظیر
دارا، سکندر بن کے جو بیٹھے ہیں آج کل
کاٹ ڈالے کی انہیں بھی وقت کی شمشیر
مانا کہ عظمٰی پارسا ہم بھی نہیں لیکن
جو قابلِ معافی نہیں، وہ کی نہیں تقصیر