ہوش کے صحرا میں آنکھوں کا سمندر رکھ دیا
میں نے خود کو، تم بنا کر، تیرے اندر رکھ دیا
زہر میں بھیگی ہوئی لو سے محبت ہو گئی
جسم کو تحلیل کر کے ایک کھنڈر رکھ دیا
کیسے نہ جھکتی میرے آگے بلائے شام غم
اپنی پیشانی پہ میں نے تیرا مندر رکھ دیا
ہاتھ ملتے رہ گئے مجھکو گرانے والے جب
آسماں نے، تخت پر، میرا مقدر رکھ دیا
ناصحان شہر نے جذبوں کی حرمت چھین کر
حسن کو کلغی لگا لی، نام چندر رکھ دیا
اب کبھی ہو گی نہ میری نارسائی شام سے
میں نے جلتے دن کا دھواں اپنے اندر رکھ دیا