ہولے ہولے ڈھانپ رہی ہے رات ہمیں انجانے میں
لوگ بہت مصروف ہیں سارے اک دوجے کو جگانے میں
تم کیا جانو بند آنکھوں پر کیا کیا صدمے ٹوٹتے ہیں
عمر گزر جاتی ہے صاحب، خواب کا بوجھ اٹھانے میں
ورنہ خاک پہ نقش گری ہی کرتے عمر گزاری ہے
آپ آئے تو رنگوں کی بھی بات چلی ویرانے میں
یہ لمحہ جو آخر شب کی وحشت میں مجھ تک پہنچا
جانے کتنی عمر لگے گی اس لمحے کو بتانے میں
موج، ہوا، ساحل کی حیرت سے آگے بھی دنیا ہے
جیسے موتی سیپ میں، جیسے خوشبو اس کاشانے میں
اندر اندر سے اب اس کی یاد کا رستہ ڈھونڈ لیا ہے
یونہی تکلف سا رہتا تھا آنکھ کے رستے جانے میں