ہونے کو تو کیا ہوا نہیں ہے
ہم نے تو کبھی کہا نہیں ہے
سب اپنے جنوں کی وحشتیں ہیں
تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
بکھروں تو کوئی سمیٹ لے گا
اس کا بھی تو آسرا نہیں ہے
کیا زیست کریں کہ اب تو صاحب
مرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے
ویرانہ ء دشتِ جاں میں کوسوں
سائے کا کہیں پتہ نہیں ہے
اُلجھا ہوں کچھ ایسے پیچ و خم میں
منزل تو ہے راستہ نہیں ہے