ہونے کو کائنات میں کیا ہو نہیں رہا
لیکن کسی طرح تو میرا ہو نہیں رہا
کیا آئینے سے دوسری صورت طلب کروں
میرا ہی عکس مجھ کو عطا ہو نہیں رہا
آواز غیر پر بھی پلٹتا ہوں کیا کروں
اک بے رخی کا قرض ادا ہو نہیں رہا
زنداں بدل گیا ہے میری زندگی نہیں
آزاد ہو گیا ہوں رہا ہو نہیں رہار رہا تو کیا
کہیں تلک تو کٹا اپنا راستہ اچھا
یہ دیکھنا ہے کہ شب کس طرح گزرتی ہے
تیرے خیال میں تو دن گزر گیا اچھا
کسی کو جیسے ابھی کچھ خیال ہو میرا
وہ ایک پھول مجھے شاخ پر لگا اچھا
جو چاہتا تو وہ مجھ کو سمیٹ سکتا تھا
مگر اسے تو میں بکھرا ہوا لگا اچھا
یہ دل بجھا تو مگر یہ خوشی بھی ہے خاور
کہ جتنی دیر جلا یہ دیا جلا اچھا