سحر ہو جاتی ہے ہر رات کے ہونے کے بعد
جذبہ دل بن جاتا ہے ہر آمر ہونے کے بعد
اس یزداں میں بھی اک عالم پنہائی ہے
پرستش کدہ بن جاتا ہے صنم کدہ ہونے کے بعد
آتش شوق بھی ہے آتش تمنا بھی
عمل بن جاتا ہے علم ہونے کے بعد
وجود زندگی بھی ہے وجود آستاں میں اب
کارواں بن جاتا ہے ہر کارواں ہونے کے بعد
لرزتا اب بھی ہے یہ عالم پیکر وجود
گل و گلزار بن جاتا ہے دانہ خاک میں ہونے کے بعد