ہو جاتا تھا اکثر جھگڑا ہم دونوں کے بِیچ
آ نہ پایا لیکن دُوجا، ہم دونوں کے بِیچ
کیا موسم تھے، کیسے دِن تھے دوری بِیچ نہیں تھی
حائل فاصلہ اب صدیوں کا ہم دونوں کے بِیچ
یوں ہی رشتے، ناتے اک دِن بھسم تو ہو جانے تھے
باقی رہ گیا ایک دِلاسہ ہم دونوں کے بِیچ
تیری تلخ کلامی نے تو حیرانی میں ڈالا
کب تھا اِتنا تِیکھا لہجہ ہم دونوں کے بِیچ
رنگ بدلتے موسم اک دِن پت جھڑ بن جاتے ہیں
کیا ہے اب اور کیا پہلے تھا ہم دونوں کے بِیچ
آدھی رات کو کِس ناتے سے تُو مِلنے کو آئی؟
کوئی تعلّق نہیں ہے اب جا ہم دونوں کے بِیچ
حسرتؔ، رنگ، دھنک اور خُوشبُو، خواب جزِیرہ ہے
یہ جو رشتہ انجانا سا ہم دونوں کے بِیچ۔