ہو چکا زیست کا فیصلہ ، ہو چکا
جو ترا تھا ، کسی اور کا ہو چکا
جگنوؤں کی ضیاء چِھن گئی دوستو
تتلیوں کا زمانہ ہوا ہو چکا
اب بھلا کیا بتائیں کہ کیسے ہوا
وہ جو ہونا تھا اک حادثہ ، ہو چکا
بوڑھے لرزیدہ ہاتھوں میں کشکول ہے
اور بیٹے کا قاتل رہا ہو چکا
وقت پر اُس کا دامن تھا انور خفا
اور اب اشک گِر کر فنا ہو چکا