ہے جنوں میں مجھ کو ہر دم یہی ایک کام کرنا
ترے سنگ آستاں پہ یہ جبین شوق دھرنا
جو نہیں وفا پرستی تو اسے وہ کیا کہیں گے
ہے متاع شوق میری، سر راہ ان پہ مرنا
رخ عاشقی کی زینت ہے تری گلی کی مٹی
ہے طریق اہل الفت اسی طرح سے سنورنا
مرا حال غم جہاں میں نہ کسی سے چھپ سکے گا
مرا کام ہجر میں ہے شب و روز آہ بھرنا
کوئی غم گسار پایا نہ کسی نے دی تسلی
تری راہ تکتے تکتے پڑا جان سے گزرنا
ترے غم زدوں کی کیسی ہے عجیب تر یہ عادت
رتے ذکر پر مچلنا، ترے نام پر نکھرنا
یہی رمز عاشقی ہے، یہی عین بندگی ہے
جو خلش ہے بےخودی کی، ہے اسی میں جینا مرنا
مجھے اہل زر نے دی ہیں یہاں دھمکیاں بھی لیکن
میں تری گلی کا سائل، مجھے کیا کسی سے ڈرنا
یہ جو سر بکف ہیں پھرتے، انھیں تم نہ سہل جانو
یہی لوگ جانتے ہیں ، یہاں ڈوب کر ابھرنا
یہی آرزو ہے دل کی، ہو نصیب مجھ کو ساقی !
کسی دن غبار بن کے ترے شہر میں بکھرنا
عجب آدمی ہے رومی بھی بقاع آب و گل میں
ہے جہاں میں جس کا شیوہ سر عام بات کرنا