ہے حیا سے ہوگئی بے زار عورت ہر طرف
ظلم کرنے قتل کرنے کی بھی عادت ہر طرف
میں نے مرتا انساں دیکھا زن سے کرکے دل لگی
بن گئی انسان کی کیوں ایسی سیرت ہر طرف
بھول کر داخل ہوا تھا حسن کے بازار میں
بِک رہا تھا حسن واں پر لگ کے قیمت ہر طرف
بے قراری دل میں آئی دیکھ کر تاریک شب
قیدِ مرقد میں مِری کیا ہوگی حالت ہر طرف
ایسے مکتب جو جہالت کو کہیں تعلیم ہے
بڑھ رہے ہیں اس جہاں میں بن کے زینت ہر طرف
میں نہ مومن بن سکا کیوں تُو نہ مجھ کو مل سکا
صوفی کیسے دیکھتے ہیں تیری صورت ہر طرف
بھول بیٹھے تجھ کو بندے ہوگیا خالی حرم
زر زمیں اور زن کے جھگڑے پر ہے محنت ہر طرف
تھام لوں اللہ کی مضبوطی سے رسّی کس طرح
صوفی مُلّا شیخ جی کی ہے جماعت ہر طرف
حاکمیّت اُس خدا کی ہوگی قائم کس طرح
پھرتا ہوگا گر تُو مسلم مثلِ میّت ہر طرف
شیخ جی کہتے ہیں کافر گر نہ مانو ان کی بات
اپنی مرضی کی شریعت اور طریقت ہر طرف
عبد شیطاں مجھ کو جاہل میرے پیچھے جب کہیں
ایسا تب ہو پھیل جائے جب جہالت ہر طرف
ووٹ سے ابلیس آئے اور مسلّط ہوگئے
دہقاں غرباء کی جنھوں نے لوٹی دولت ہر طرف
تُو ہے عامر ایک شیدا جیسے اک اقبال تھا
توڑ دی شیطاں نے فتنوں سے ہے ملّت ہر طرف