ہے رت بہار کی دل میں مگر بہار نہیں
میں بے قرار ہوں مجھ کو کہیں قرار نہیں
وفا کے نام پہ اتنے فریب کھائے ہیں
تری نگاہ کرم کا بھی اعتبار نہیں
جو پھول تو نے دیے تھے سنبھال رکھے ہیں
اگرچہ ان میں وہ پہلے سا اب نکھار نہیں
مرے صیاد کی مرضی ہے گھٹ کے مر جاؤں
مجھے تو آہ بھی بھرنے پہ اختیار نہیں
وہ جس کے پھولوں کو خون جگر سے پالا تھا
اسی چمن کی فضا آج سازگار نہیں
ہے مفلسوں کے لیے موت زیست سے بہتر
یوں ایک بار وہ مرتے ہیں بار بار نہیں
لہو مین ڈوب رہی ہے گلی گلی زاہد
ہے کون شہر میں جو ظلم کا شکار نہیں