افسوس آج چل بسے مقبول صابری
حق نے عطا کیا تھا جنھیں صوتِ سرمدی
بر صغیر موت سے ہے جن کی سوگوار
شمعِ ہُنر کی اُن سے فروزاں تھی روشنی
”ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق“
جن کے کلام سے ہے عیاں عشقِ معنوی
جب سے گئے ہیں چھوڑ کے اس کو یہاں سے وہ
مدھم ہے تب سے بزمِ معارف کی روشنی
عرضِ ہُنر کا اُن کے نہیں تھا کوئی جواب
آواز میں تھا اُن کی نہاں سوزِ زندگی
رہ جاتا ہے کمالِ ہُنر ایک یادگار
جانا ہے سب کو چھوڑ کے دنیائے عارضی
ابدی سکون خُلدمیں برقی انھیں ملے
تا عُمر بخشتے رہے جو سب کو تازگی