یوں بھی کڑوا انہیں لگوں گا میں
سچ کی عادت ہے سچ کہوں گا میں
ہار مانوں گا کب سہولت سے
جب تلک سانس ہے لڑوں گا میں
لڑکھڑانے لگے قدم میرے
گر گیا بھی تو پھر اُٹھوں گا میں
جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے
گر کیا ہے بُرا بھروں گا میں
تم جو چاہو تو کیا نہیں ممکن
تم نہ چاہو تو کیا کروں گا میں
جس میں نورِ خُدا بھرا ہوا ہے
طاقچے میں وہ دل رکھوں گا میں
ایسا سوچا بھی تھا نہیں شوبی
کہ کسی پہ کبھی مروں گا میں