یوں تصور میں بسر رات کیا کرتے تھے

Poet: شفیق جونپوری By: نعمان علی, Quetta

یوں تصور میں بسر رات کیا کرتے تھے
لب نہ کھلتے تھے مگر بات کیا کرتے تھے

ہائے وہ رات کہ سوتی تھی خدائی ساری
ہم کسی در پہ مناجات کیا کرتے تھے

یاد ہے بندگی اہل محبت جس پر
آپ بھی فخر و مباہات کیا کرتے تھے

ہم کبھی معتکف کنج حرم ہو کر بھی
سجدۂ پیر خرابات کیا کرتے تھے

یاد کرتا ہے اسی عہد گزشتہ کو شفیقؔ
جب تم الطاف و عنایات کیا کرتے تھے

Rate it:
Views: 580
26 May, 2022