یوں تو ذہن عقیدتوں کی آبیاری لگے تھے
مگر لوگ عبادتوں میں پارسائی لگے تھے
نظروں سے گرے تو گر ہی گئے، پھر
اُٹھاکر دیکھا تو بڑے بھاری لگے تھے
یوں تو دین اور دنیا الگ تھی اپنی
مگر کبھی کبھی احساس دنیاداری لگے تھے
وہ افسوں سے ہر بازی جیتتے گئے
ہم دل لو بہلانے تک جواری لگے تھے
دل کی تجویزوں پر قدم رکھتے رکھتے
پوری حیات جیسے ہم عیاری لگے تھے
سنتوشؔ پہلے بھی تھی یہ سوانگ دنیا
ہم تو خاک پہ ایک خواری لگے تھے