یوں تو قدم قدم لٹتے ہیں لوگ بازار میں
ہیں کچھ جو ہر دم لٹتے ہیں اپنے ہی کوچہ یار میں
ہیں ہوتے فروخت غنچہ گلفام بھی جا بجا بازار میں
یوں دیوانے غنچہ خام کے بھی دیتے دام اشغال میں
ہے یہ اعجوبہ ہی بےنام بکتے لوگ سرعام بازار میں
یوں جی رہے سب ہی اس بے حسی کے عالم حصار میں
اجلے لوگ اب نظر آتے نہیں جا بسے وہ دیار غیر میں
اٹھے تن من سے دھواں یا لگے آ گ دیار اشجار میں
میلے تن من پے چڑھے صوفیانہ خول کے خول یوں
ملتی نہیں سانس گو ملتی ہر شہ جنگل ود نگل کے بازار میں