یوں تو لکھنے کو کیا کیا نہیں لکھا میں نے
پھر بھی جتنا تجھے چاہا نہیں لکھا میں نے
یوں تو ہونگے بہت زمانے میں شاعر
جیسے سب لکھتے ہیں ویسا نہیں لکھا میں نے
یوں تو لہر میں کچھ رنگ جھلک آتے ہیں
مجھ میں ہے جو دریا نہیں لکھا میں نے
میرے ہر لفظ کی وسعت میں ہے اک عمر کا عشق
میں عجب ہوں اگر بھول سے نہیں لکھا میں نے
میری نظروں سے جو اک بار نہ پہنچا تجھ تک
پھر وہ مکتوب دوبارہ نہیں لکھا میں نے
میری سچائی ہر اک لفظ سے عیاں ہوتی ہے
سوچتا ہوں تجھے اپنا کیوں نہیں لکھا میں نے