دکھ درد کو دنیا میں چلو مل کے مٹائیں
خوشیوں کے ہر اک سمت حسیں پھول اگائیں
گورے کی نہ کالے کی ہو تفریق جہاں میں
انسان سے انساں کی محبت کو جگائیں
مذہب ہو ہر اک قوم کا انساں سے محبت
دنیا کو ہی جنت کا حسیں باغ بنائیں
بے گھر نہ رہے کوئ بھی کچھ ایسا کریں ہم
غربت نہ رہے بھوک و بیماری کو مٹائیں
کیا ظلم ہے کہ خوشیوں کی گھڑی ہوتا ہے ماتم
بچوں کی پیدائش ہو تو مر جاتی ہیں مائیں
زرخیز ہوں میدان تو سر سبز ہوں کھلیان
سانجھی ہوں سبھی فصلیں سبھی مل کے اگائیں
تعلیم کریں عام و اخلاق سنواریں
باتوں سے ، عمل سے نہ کسی دل کو دکھائیں