میری یادوں نے تم کو رلایا تو نہیں
تنہائیوں میں آ کے ستایا تو نہیں
اکثر یہی سوال تم سے پوچھتے رہے
کہیں دور رہ کر مجھے بھلایا تو نہیں
میرے گلشن کو بہاریں دے کر
بیگانی راہ کو گلزار بنایا تو نہیں
گلاب سرخ جس پہ میرا نام لکھا ہے
حبس کی زد میں آکے مر جھایا تو نہیں
گلاب سرخ جو میں نے تمہارے نام کیا
اسکی جگہ غیروں کا لگایا تو نہیں
ہمارا دل تو ہر اک زخم سہہ چکا لیکن
کسی نازنیں کے دل کو دکھایا تو نہیں
ہمارا دل تمہاری نظر کا وار سہہ گیا
یہ تیر اور کسی دل پہ چلایا تو نہیں
محبت کر گزرنا ہر کسی کے بس میں نہیں
کہیں تم نے بھی یہ روگ لگایا تو نہیں
تمہارے پاس شاید آ ہی جاتے
ہمیں تم نے کبھی بلایا تو نہیں