یہ آرزو ہے اپنی کہ ایسی گھڑی بھی ہو
کہ تٌو ہو پاس بس نہ کوئی دوسرا ہی ہو
جو مقصدِ حیات گر پیشِ نظر رہے
تو منزلِ حیات سے نہ کوئی دوری ہو
گر بندگی کا حق نہ ادا کرسکیں جو ہم
تو دنیا کی کوئی بھی محبت نہ اٍتنی ہو
جو کچھ زباں پہ ہو تو وہ ہی دل میں بھی رہے
کچھ شائبہ نفاق کا بالکل نہ کوئی ہو
کچھ یاد بھی ہے تم کو وہ تھے جو ہاتھی والے
سب مٹ گیا نشاں جو حرکت بھی ویسی کی ہو
حسرت یہ اثر کی ہے کہ سب ہوں ہی باصفا
اٌس کے لئے تو سب کی طلب بھی تو ویسی ہو