یہ بات " نا" کرو تم صرف اپنےمطلب کی
یہ مسئلہ ہے ہمارا یہ بات ہے سب کی
ابھی مصیبتوں کے چار پل نہیں گذرے
بدل گئے سبھی فطرت بدل گئی سب کی
نوازشات تری یہ تجھے مبارک ہوں
سمجھ گیا زباں تیری مفاد و مطلب کی
اسیر بن گیا الزام میں زلیخا کے
گنہ نہیں ہے مرا کچھ قسم مرے رب کی
یہ ڈھیر ساری کتابیں ہیں آج بھی لیکن
وہ رونقیں کہاں مسجد کی اور مکتب کی
یہ نیند بھی بڑی آرامِ جاں ہے انساں کی
اٹھو ! کِیا کرو نادرؔ کبھی دعا شب کی