یہ جو آنکھ میں نمی سی ہے
یہ جو زندگی مین کمی سی ہے
یہ جو چشم تر میں چمکتی ہے
یہ جو موتیوں کی لڑی سی ہے
جو سماعتوں میں سنائی دے
اک ان کہی جو کہی سی ہے
کوئی جستجو، کوئی آرزو
میرے دل میں دبی سی ہے
شب ہجر کے سناٹے میں
شمع کوئی جلی سی ہے
کوئی آس ہے کہ امید ہے
ٹوٹ کہ بھی جڑی سی ہے
یہ جو مختصر سی حیات ہے
کیوں مجھ کو لگتی بڑی سی ہے
مجھے کیا خبر کہ یہ کیفیت
بھلی سی ہے کہ بری سی ہے
یہ جو آنکھ میں نمی سی ہے
یہ جو زندگی میں کمی سی ہے