یہ دنیائے کائنات جس تیز روی کا شکار ہے
کوزہ گر نے چاک گھمایا ہے کوئی 360 کی ڈگری پر
میڈیا کے جنجال نے وہ حالت کی ہے نسل کی
تربیت کا داغ لگا ہے ہر اک بزرگ کی پگڑی پر
چار دیواری میں بھی رہ کر عیاں ہے سب کچھ ہر اک کا
نجانے کتنے چھید ہیں اک ضعیف باپ کی چھتری پر
چراغِ خانہ کا شمعِ محفل کی مانند رقص جاری یے
کوئی روک ٹوک نہیں ہے آج کی اس شہزادی پر
اس شہرِ بے وفا میں جفا کش حسیناؤں کی بہتات ہے
اسی لئے تو پڑے ہوئے ہیں حُسین سر ریل کی پٹڑی پر
مقتل گاہ کیوں ہرسُو ہے لخت جگر ہیں ہدف پر
یہی تو اک ذمہ داری تھی پرچم والی وردی پر
ہم تو ضیاؔء اس کارِ زیاں سے کب کے مر چکے
اب تو بس جھول رہے ہیں زندگی کی ڈوری پر