یہ دِل تھا مچلا مچلا، بھلا کیسے سنبھالتے ھم
رقیبوں کے حالِ دِل کو، بھلا کیسے جانتے ھم
ھرسُو تھے کلیّاں، غنچے، بہکے شباب میں
جوشِ بہارِ دِل کو، بھلا کیسے ٹالتے ھم
آنکھوں سے یارو اُن کی، مستی ٹپک رھی تھی
ایسے میں عرضِ خِرد، بھلا کیسے مانتے ھم
میرا صیّاد ھی تھا، شہرِ جفا کا قاضی
ایسے میں دادِ اِنصاف، بھلا کیسے مانگتے ھم
جِس بُت نے تھی خدائی، پائی مرے جہاں سے
اُس بُت کی خاکِ پا کو، بھلا کیسے چھانتے ھم