یہ سر زمیں میرے خوابوں کی سر زمیں تو نہیں ؟
میں ڈھونڈتی ہوں جسے وہ یہیں کہیں تو نہیں ؟
پلٹ پلٹ کے جو دیوار و در کو تکتا ہے
وہ اِس مکاں کا پرانا کویٔ مکیں تو نہیں ؟
وہ میرے ساتھ کہیں کِس طرح ٹھہر جاتا
وہ ہمقدم تھا مرِا ، میرا ہمنشیں تو نہیں
ہے اُس کو ناز بہت اپنے حسنُ پر ، ما نا
حسیں سہی مگر اتنا بھی وہ حسیں تو نہیں
تمہارے دِل میں بھی میرے لیۓ محبت ہے
گماں سہی مجھے اس کا ، مگر یقیں تو نہیں
ہے تیرا پیار بہت کچھ مرِے لیۓ ، لیکن
غمِ حیات سے ذیادہ یہ دِلنشیں تو نہیں
ہے حوصلہ ابھی عذراؔ ستم اُٹھانے کا
کہ اس قدر بھی شکستہ دِلِ حزیں تو نہیں