یہ سوچ کے میں خود بھی پریشان ہو گیا
میں اپنے ہی گھر آج سے مہمان ہو گیا
جو میں نے خود جمع کیا اپنے مکان میں
کیوں میرے لیئے پرایا وہ سامان ہو گیا
عارضی حیات کو ابدی سمجھ بیٹھا ہے
ایسا نادان کیسے کیسے یہ انسان ہو گیا
یہ کون میری روح میں آ کر سما گیا ہے
کہ میں اہنے آپ سے ہی انجان ہو گیا
جسکی نگاہوں میں قہر تھا میرے لئے
وہ آج مجھ پہ کیسے مہربان ہو گیا
اب کیسے کس طرح وہ مہربان ہو گیا
یہ دیکھ کے رقیب بھی حیران ہو گیا
ایسے تیرا وجود محبت کے با طفیل
صحرا سے جیسے کوئی گَلِستان ہو گیا
محصور ہیں سبھی یوں اپنی ذات میں عظمٰی
جیسے خود اپنا آپ ہی زِندان ہو گیا