اس شہر میں ہر شخص ہی بیزار بہت ہے
یہ مان لیا میں نے تو زر دار بہت ہے
کیوں تم نے دکھایا تھا مجھے پیار کا رستہ
یہ بھی بتا دیتے کہ یہ پر خار بہت ہے
ہر راستہ ہو سہل یہ ممکن تو نہیں ہے
آتا ہے نظر سیدھا وہ خمدار بہت ہے
کیا پوچھتے ہو زندگی کیسی ہے گذاری
جو ہم نے گذاری ہے وہ دشوار بہت ہے
دشمن ہو زمانہ بھی کوئی غم نہیں مجھ کو
مخلص ہو اگر چہ تو بس اک یار بہت ہے