یہ پیار محبت کا رِشتہ ہے دُنیا میں انمول سکھی
تو جذبوں کی سچائی کو دولت سے تو نہ تول سکھی
ریشم کے لتے ، گہنے سے کب چین جگر کا ملتا ہے ؟
وہ چین بھلا کیسے پائےپردیس میں جس کا ڈھول سکھی
تجھ کو بھی اپنے خوابوں کا شاید اک رانجھا مل جائے
تو اپنے میٹھے گیتوں سے کانوں میں مصری گھول سکھی
تجھ کو بھی تو معلوم ہےیہ رونے سے کیا حاصل ہو گا
تو اشکوں کے سچے موتی یوں مٹی میں نہ رول سکھی
ایسا لگتا ہے صبح سے جیسے کچھ ہونے والا ہے
رہ رہ کر آج نجانے کیوں اٹھتے ہیں دل میں ہول سکھی
وہ پیار کے جس افسانے کو انجام نہ کوئی دے پائے
اس سیدھے سے افسانے میں تھا شاید کوئی جھول سکھی