یہ کیسا سلسلہ سا چل رہا ہے
چراغ آندھی میں کیسے جل رہا ہے
یہ موسم تو بدل جانے کا ہے نا
وہ کیونکر ساتھ میرے چل رہا ہے
تپش سے گھبرا گیا ہے شاید
وہ دیکھو مسافر رستہ بدل رہا ہے
ہر اک چہرے پہ ہیں آنکھیں پرائی
یہاں کوئی شناسا نا رہا ہے
بچھڑنے کی اسے جلدی بہت تھی
بہت عرصہ جو میرا رہا ہے
خزاں کی آہٹیں چاروں طرف ہیں
نیا پھر پھول کوئی کھل رہا ہے