کہاں کی تھکن ہے
یہ کیسی تھکن ہے
دبے پاؤں شہر بدں میں اتری
رگوں میں لہو کی طرح بہہ رہی ہے
انگلیاں بار ناخن سے بیزار ہیں
میری آنکھوں پہ پلکیں انبار ہیں
سانس سینے میں مصوف آزاد ہے
میرے شانوں پہ رکھا ہوا بانجھ سر بار بیکار ہے
یہ تھکن قربتوں کی نہایت نہیں
جس میں آسودگی کی مہک ہو
یہ تھکن راستوں کی مسافت نہیں
روئے منزل کی جس میں جھلک ہو
یہ تھکن فکر کی بھی روایت نہیں
جس سے اوروں کو کوئی بشارت ملے
یہ تھکن عمر کی بھی علامت نہیں
جس سے اوروں کو جینے کی ہمت ملے
یہ تھکن میرے اندر کی اپنی تھکن
رگوں میں لہو کی طرح بہہ رہی ہے
کہاں کی تھکن ہے
یہ کیسی تھکن ہے