تو منزل نہیں تھی جس کا سفر کیا
تو عبادت نہیں تھی جسے جابجا کیا
تو خدا نہیں تھا جسکی پرستش کی
تو اک وہم تھا جس سے محبت کی
تو اک گمان تھا جو پال لیا
تو اک روگ تھا جو دل کو لگا لیا
تو حاکم وقت نہیں تھا جو خود کو خدا سمجھا
میں اتنا بھی مشکل نہیں تھا جسے تو نہ سمجھا
تو دانش نہیں بس فریبی کا جال تھا
میں اتنا پاگل نہیں تھا بس مجھ میں ایمان تھا
تو وقت کو مٹھی میں لے کرچل دیا
روح نکل گئی تو سفر سے پلٹ دیا
تو کمرے میں پرانی تصویر کی مانند
مجھے جکڑ لیاہے ذندان کی زنجیر کی مانند
تو نے توڑ دیا سچ ہے کہ میں ٹوٹ گیا ہوں
میں اک آنسو تھا جو تیری چشم سے پھوٹ گیا ہوں
تو بے وفا تھا تجھ سے وفا کی امید کیا
عشق ہے بس اور تجھ سے میرا تعلق ہی کیا
تونے گرا دی سبھی دیواریں میرے دل کی
تنہاہ رہ گیا ہوں حالت بوجھل سی ہے دل کی
تو نے سمجھا کہ تیرے بعد مر جاوں گا نفیس میں
دیکھو مرا تو نہیں بس ذندہ لاش ہوں میں
بس ذندہ لاش ہو میں، بس ذندہ لاش ہوں میں !!!