نغمہ وہ پیار کا کبھی گایا نہیں گیا
دل کا بھی حال اپنا سنایا نہیں گیا
مرنے کے بعد بھی مجھے کاندھا نہیں دیا
تم سے ذرا سا بوجھ اٹھایا نہیں گیا
حالت پہ میری تو مرے دشمن بھی رو پڑے
تم سے تو ایک آنسو بہایا نہیں گیا
سب کچھ بھلا دیا ہے ترے واسطے مگر
اس دل سے تیرا نام مٹایا نہیں گیا
اجڑے ہیں اس طرح مرے سپنوں کے سلسلے
آنکھوں میں کوئی خواب سجایا نہیں گیا
دیتے ہیں واسطے مجھے وہ ہاتھ جوڑ کر
جن سے ہمارا راز چھپایا نہیں گیا
وعدوں کو اپنے سارے وہ یکسر بھلا گیا
اک لمحے کو بھی ہم سے بھلایا نہیں گیا