مانگنے شہر میں نہ کوئی بھکاری نکلے
شہر میں جب کوئی دولت کا پجاری نکلے
مانگنے پہنچے مزاروں پر مرادیں اپنی
جتنے امراء تھے سارے بھکاری نکلے
جن سے امید تھی کہ خیر مانگیں گے خدا سے
جتنے باریش تھے قبروں کے پجاری نکلے
جس شجر کو لگایا تھا کبھی سائے کے لیئے
آج غربت میں لیئے گھر سے وہ آری نکلے
آدمیت بھی ہے یہ سوچ رہے ہیں پرندے
ہاتھ میں رزق لیئے سارے شکاری نکلے
جن کو دینی تھی تعلیم انہیں دیتے رہے بھیک
ہر محلے سے پھر بچے بھی بھکاری نکلے