عشق و مستی کی کہانی اب پرانی ہو چکی
کیا کہوں یارو بہت اب لن ترانی ہو چکی
قصہِ پارینہ اب تیری جوانی ہو چکی
تھی کبھی کافر ادا اب آنجہانی ہو چکی
سوچتا ہوں کر ہی دوں اظہار اپنی چاہ کا
اب بہت بیكار میں یہ آنی جانی ہو چکی
کچھ رقیبوں کا بھی تو احوال بتلاؤ ہمیں
عاشقوں کی، دلبروں کی ترجمانی ہو چکی
تھی کبھی گل سے کبھی بلبل سے اپنی گفتگو
کہتے ہیں کچھ سادہ اب جادو بیانی ہو چکی
دل عجب مخلوق ہے یہ عقل سےہے ماورا
اس کی نادانی سے مشکل زندگانی ہوچکی
جو کٹے پر نا جھکے ظلمت کے اس دربارمیں
ان کی عظمت کی کہانی جاودانی ہو چکی