اجازت ہو تو اک عرض تمنا کرلیں
خود کو تجھ میں فنا کر لیں
یہ زہد یہ عبادت کس کی قبول ہو؟
جی چاہتا ہے عشق میں انتہا کر لیں
یہ خود فریبی یہ چکا چوند دنیا
کوئی مجھ سے لےلے تو تجارت کر لیں
تپتے ہوئے صحرا میں پاوٴں جلتے ہیں
ہو ایسا ایمان اس کو گلستاں کر لیں
مکاں اور لامکاں کی دیوار میں بند دروازە
جو کبھی کھلے تو لامکاں کی سیر کر لیں
آرزو نہیں قطرے کو گہر بننے کی
بس بحر بیقراں میں خود کو فنا کر لیں