دشمن ہو کوئی دوست ہو پرکھا نہیں کرتے
ہم خاک نشیں ظرف کا سودا نہیں کرتے
اک لفظ جو کہہ دیں تو وہی لفظ ہے آخر
کٹ جائے زباں بات کو بدلا نہیں کرتے
کوئی آ کے ہمیں ضرب لگا دے تو الگ بات
ہم خود کوئی لشکر کبھی پسپا نہیں کرتے
اک ضبطِ مسافت ہے زمانے کی کڑی دھوپ
گھر سے بنا چادر لئے نکلا نہیں کرتے
جس شہر میں جانا نہ ہو لوگوں سے سر ِراہ
اس شہر کا رستہ کبھی پوچھا نہیں کرتے
بن جائیں تو پھر ان کی پرستش کی مصیبت
پتھر کبھی اس طرح تراشا نہیں کرتے
عقیل کوئی بات ہے خاموش سی لب پر
کچجھ لفظ تو ایسے ہیں جو لکھا نہیں کرتے