کتنا بیقراں ہے ستاروں کا جہاں
حد_ نظر سے بہت دور ہے آسماں
یہ کائینات مسلسل پھیل رہی ہے
ٹھہرا نہیں کسی لمحہ یہ کارواں
حقیقت_ روشنی کوئی سمجھا ہی نہیں
کبھی لہروں کبھی زروں کا ہے طوفاں
راز تو بہت ہیں مگر نظر چاہیے
قدرت تو چاہتی ہے کہ ہو عیاں
عالم_ موجود پر دسترس ہے غائب پر نہیں
عقل و علم بھی لاچار کہ پہنچیں وہاں
سائینس فعل ہے قول_ قدرت کا
قدرت کا قول ہے بس قرآں
قول و فعل میں کہیں تضاد نہیں
کسی کا تخیل جاکر چھو لے آسماں
ذرے ذرے کے دل میں طوفان پوشیدہ
اک بھی ٹوٹے, نیست و نابود یہ جہاں
بخارات بادل بن کے برسیں پہاڑوں پر
برف پگتی ہے، ہوتا ہے سیراب یہ جہاں
قدرت اگر روک دے اس نظام کو
پانی سے ہی لڑ لڑ کے مر جائے انساں
توانائی قدرت_ الہی کا مظہر ہے
پانی،ہوا اور روشنی کیا کیا ہو بیاں
تخیل_ انسانی نے پہیہ بنالیا عقل سے
عقل مرھون_ منت ہے، قدرت_ یزداں
پہیہ بڑا انقلاب ہے تہذیب_ انسانی میں
اس کے گھومنے میں ترقی کا راز نہاں
جہاز اڑنے لگے ہیں آسماں پر
ازل سے پرندوں کا بھی وہی ہے آسماں
انسان نکل گیا چیر کے زمین کے کنارے
لاتنفذن الا بسلطن، قرآن کرے بیاں
عقل راہ بھی دیتی ہے گمراە بھی کرتی ہے
ھدایت کا سر چشمہ ہے رب_ جہاں
جمہوریت اک ایسا طرز_ حکومت ہے
گنے جاتے ہیں انساں، بطریق_ حیواں
نظریہٴ جو متضاد نہ ہو فطرت سے
پلتی ہیں تہذیبیں ہوتی ہے قدرت مہرباں
دیکھا انجام_ فرعون، نمرود اور قوم_ لوط
مٹ گئے عاد و ثمود کے بھی نشاں
بڑے بڑے جہاز کس نے ٹھہراۓ پانی پر
قدرت_ الہی کا ہے انسانی سوچ پر احساں
انسان اپنے تئیں کچھ بھی نہیں کرسکتا
قدرت ہی چاہتی ہے ہوں راز افشاں