عجب وحشتیں ناچتی ہیں ، اب اس دہر میں
مہیب کانٹے اگتے ہیں
چلچلاتی دھوپ میں گلاب کھلے ہیں
یہاں ایمان اقدار عقائد کا
بازار لگتا ہے
کہیں جسے پاک استاں
انصاف کا قبرستان لگتا ہے
قطرہ قطرہ پگھلتی ہوئی شمع سے
کب تاریکیاں چھٹی ہیں
مسجد ، مندر گردوارہ
کون بچا ہے بر بریت کے قہر سے
کذب کی ارزانی میں نایاب سچ کی قیمت
سروں کی فصل کٹتی ہے
بدر ہو یا کرب و بلا
عجیب عہد طلسم ہے
جہاں جیتے ہیں نہ مرتے ہیں