جانِ غالبؔ
یاد آتا ہے تمہارے عمِّ جانی سے سنا ہے
میری فرہنگِ دساتیر آپ کے گھر پر ہے شاید
پھر یہ کہتا ہوں وہاں ہوتی تو کیوں نا آپ ہی تُم بھیج دیتے
تمُ کہ اک نورس ثمر ہو اس نہال ِ جانفزا کے
جس نے خودآنکھوں کے میرےسامنے نشو و نما پائی ہےاور میں
ہوں ہواخواہ و مربی اس نہالِ جانفزیں کا
مجھ کو تمُ سے پھر نہ کیونکر پیار ہوگا
اب تمہیں دیکھوں میں کیسے
اس کی دو ہی صورتیں ہیں
تُم ہی دلی آؤ یا پھر میں لوہارو آرہوں، پر
تم ہو مجبور اور یوں معذور ہوں میں
خود یہ کہتا ہوں کہ میرا عذرِ زنہار اس طرح مسموع نہ ہو جب تلک یہ نہ سمجھ لو
کون ہوں میں اور میرا ماجرا کیا
اب سنو کہ دو ہیں عالم
ایک ہے ارواح کااور ایک عالم آب و گِل کا
حاکم ان دونوں کا جو ہے
حق ہے ،فرماتا ہے خود ہی
آج ہے کس کے لیے یہ پادشاہی
اور پھر وہ آپ ہی خود بولتا ہے
واحد القہار اللہ کے لیے ہے
یوں اگرچہ قاعدہ اِک عام ہےیہ
اس جہانِ آب و گِل کے سارے مجرم
عالمِ ارواح میں پاتے سزا ہیں
لیکن ایسا بھی ہوا ہے
عالمِ ارواح میں جس نے خطا کی ہے اسے اس عالمِ دنیا میں بھیجا اور سزا دی
یوں رجب کی آٹھویں تھی جب یہ عاجز روبکاری کےلیے بھیجا گیا ہے
اور پھر تیرہ برس کے بعد میرے واسطے حکمِ دوامِ حبس بھی صادر ہوا ہے
ایک بیڑی ڈال دی پاؤں میں میرے
اور دلی شہر کو زنداں مقرر کردیا ہے
یوں مجھے زنداں میں ڈالا
فکرِ نظم و نثر کو میری مشقت کردیا ہے
بعد برسوں جیل خانے سے میں بھاگا
پھر بلادِ شرقیہ میں کچھ برس پھرتا رہا ہوں
مجھ کو پایاں کار کلکتے سے پکڑ ا اور اسی مجلس میں آکر لا بٹھایا
جب بغاوت پر مجھے آمادہ پایا
دو بڑھاکر اور ہتھکڑیاں لگادیں
پاؤں بیڑی سے فگاراور ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخمی
یوں مشقت اور بھی مشکل ہوئی تھی
ساری طاقت یک قلم زائل ہوئی، پربے حیا ہوں
پھر گزشتہ سال بیڑی اس عقوبت خانہٗ زنداں میں چھوڑی
ساتھ ہتھکڑیوں کے بھاگا
اور مراد آباد پہنچا
دو مہنیےسے بھی کچھ کم ، میں وہاں تھا
پھراچانک آن پکڑا
اب کیا ہے عہد کہ میں پھر نہ بھاگوں گا کبھی یوں
بھاگ لوں پربھاگنے کی اب کسے طاقت رہی ہے
دیکھیے حکمِ رہائی کب ہو صادر
اک ذرا سا احتمالِ آخری ہے
چھوٹ جاؤں گا میں ذی الحجہ میں اب کے
پھر رہائی پانے والا بس سوائے اپنے گھر کے اور کہیں جاتا نہیں ہے
سوچتا ہوں اس نجاتِ آخری کے بعد میں بھی عالمِ ارواح جاؤں