بے خبر کب رہتے ہیں وہ میرے حال سے
یہ الگ بات کہ بات سنتے ہیں مجال سے
پوچھ لیا جو ان سے بکھری زلفوں کا سبب
شرما سے گے میرے اس سوال سے
بات جب بھی چلی تجدید عہد وفا کی
مسکرا کے ہونٹ کاٹ لیا کمال سے
کہا جب ان سے شاید یہ آخری ملاقات ہو
دیر تلک پونچھتے رہے آنکھیں رومال سے
ہو جنون محبت اور ہوش زر بھی
بات کچھ ججتی نہیں اس مثال سے
جب دوری نے ستایا اور جی بھی گبھرایا
ڈال دیا بلنس کہ بات بنتی نہیں مس کال سے