نہ تھا یوں تو زمانے میں کسی سے رتبہ کم میرا
“مٹایا گردش افلاک نے جاہ و حشم میرا“
تھکے قدموں سے گزری ساتھ ساری زندگی اپنی
نہ اس کا ھم قدم میں تھا، نہ وہ تھا ہم قدم میرا
قسم کھائی ہے سہنے کی تمھارا ہر ستم میں نے
قسم اب تم کو جانآں ، آزما لو تم بھی دم میرا
سخن پر میرے بس ان کا ہی غلبہ ہے، اجارہ ہے
تصور میں وہ آتے ہیں تو چلتا ہے قلم میرا
نہیں ہے وہ میرا ، وہ ہرجائی ہے ، مانا ‘حسن‘ لیکن
زمانہ سارا سمجھے ہے اسے اب بھی صنم میرا
( طرحی غزل بر مصرعہ برج نرائن چکبست لکھنوی )