میری زندگی میں آیا وہ شخص اک خواب سا بن کر
دِل میں گھر کر گیا میرے وہ شخص نواب سا بن کر
کرتا رہا مجھ سے سوال کیوں کرتےہو اتنی محبت مجھ سے
میں کھڑا رہا اُس شخص کے سامنے لاجواب سا بن کر
حسرتیں اتنی تھیں کے ملیں گے بہت سی باتیں کریں گے
میری حسرتیں میرے دِل میں راہ گئی اک حساب سا بن کر
اُس نے تو یوں ہی قسم کھا رکھی ہے مجھے ستانے کی
اک ہم ہیں جوراہ گیے ہیں اُس کی یاد میں نصاب سابن کر
بڑے بےمُراوت ہیں تیرے شہر کے نفیس لوگ مجسف
قدم قدم پہ ستم دیتےہیں زندگی راہ گئی ہےعذاب سابن کر