حیراں ہے نگاہ جہاں کے اس منطر پر
عا لم ہے اک بےحسی کا قدم قدم پر
ہر سمت یہ چلتی پھرتی زندہ لاشیں
ہر لاش ہستی میں اپنی مگن قدم قدم پر
نہ جانے وہ مجھ کو نہ جانوں میں اس کو
شب وروز لٹ رہے ہیں یہاں سب قدم قدم پر
یوں تماشہ بنے ہیں خود تماش بین بھی خود
ا نسا نیت کے منہ پہ طما نچہ قدم قدم پر
بصارت وسماعت و فہم بھی ہوی گُم سُم
نہ آواز اُ ٹھے نہ اُ ٹھے قدم ُظلم و ستم پر
دہر ہے یا زندہ لاشوں کا ہے قبرستان
اپنا اپنا کُتبہ اُ ٹھاۓ زندہ لاشیں قدم قدم پر