ملوں جس اجنبی سے بھی وہی اپنا نکلتا ہے
قریبی کا بہت اس سے کوئی رشتہ نکلتا ہے
ہمیشہ جب کسی گھپلے کا پردہ فاش ہوتا ہے
منسٹر کا کوئی بھائی کوئی بیٹا نکلتا ہے
پڑوسی دوستی کا ہاتھ جب جب بھی بڑھاتے ہیں
تبھی چاروں طرف دہشت کا اک ہوا نکلتا ہے
طمانچے مارتی ہے دوستو جب جب بھی مہنگائی
ہمارے حکمراں کا بیرونی دورہ نکلتا ہے
مری عادت ہے ہر اک کو نواز اپنا سمجھتا ہوں
جسے دشمن سمجھتا ہوں وہی اپنا نکلتا ہے