✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
محمد ارشد قریشی
Search
Add Poetry
Poetries by محمد ارشد قریشی
اے مرے شہرِ محبت تیری شاموں کی قسم
اے مرے شہرِ محبت تیری شاموں کی قسم
جن پر ڈالے تھے کبھی جھولے ان آموں کی قسم
میں تجھے بھول نہ پاؤں گا میرے ٹنڈو جام
ماں کی آغوش اور باباکے شانوں کی قسم
گھر سے آتی تھی جو خوشبو کبھی روٹی کی
ماں کے ہاتھوں سے بنے ان کھانوں کی قسم
ٹوٹے دانتوں کو لے جاتی تھیں پریاں سب کے
بچوں کے ساتھ گھڑے سارے فسانوں کی قسم
جامن کے پتوں پہ لگا کر کتھا چونا
ہم نے جو کھائے تھے ان پانوں کی قسم
سامنے گھر کے سڑک تھی جو بڑی خونی تھی
اس پر جو جاں سے گئے ان کی جانوں کی قسم
گھر کے آنگن میں کپ اور پیالے رکھ کر
اک چمچے سے بجاتے تھے جو پیانوں کی قسم
خالی ڈبیوں سے بنے تھے جو ترازو اپنے
گھر کے اندر جو تھیں اپنی دکانوں کی قسم
گھر کے طاق میں جلتا تھا دِیا شب بھر جو
اڑتے تھے گرد ان کے جو اُن پروانوں کی قسم
اے مرے شہرِ محبت تیری شاموں کی قسم
جن پر ڈالے تھے کبھی جھولے ان آموں کی قسم
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
جرم کس کا تھا کی خطا کس نے
جرم کس کا تھا کی خطا کس نے
راستے کر دیے جُدا کس نے
تم تو کہتی تھیں میں تمہاری ہوں
پھر یہ باہوں میں لے لیا کس نے
یہ محبت تو فرض تھی مجھ پر
فرض میرا کیا ادا کس نے
بات یہ بھی کبھی کھلے گی ضرور
کی وفا کس نے اور جفا کس نے
جاں کے دشمن مرے بہت سے ہیں
مجھ کو دے دی ہے پھر دعا کس نے
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
بات ایسی وہ کر گیا
بات ایسی وہ کر گیا
میری نظروں سے گر گیا
میرے دل میں اسی کی عزت تھی
جس کی خاطر میں چپ رہا
کیا بتاؤں میں حال اپنوں کا
میں نے دشمن کو دی دعا
جس کو پالا تھا آستینوں میں
ہم کو اس نے ہی ڈس لیا
اس کے آنے کا منتظر ہی رہا
آگئی اب مری قضا
بعد میرے وہ خوش رہے ہر دم
میری اب بھی یہ ہے دعا
قرض باقی تھا اس کا مجھ پر جو
ہو گیا وہ بھی اب ادا
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
جھوٹ
جھوٹ انسان کو نظروں سے گرا دیتا ہے
جھوٹ ہر رشتے کی بنیاد ہلا دیتا ہے
کون ہوتا ہے یہاں غم میں پریشاں تیرے
جو بھی آتا ہے یونہی آنسو بہا دیتا ہے
جب بھی پوچھا کہ بتا درد کی حد کیا ہے یہاں
خاک ہاتھوں میں وہ لیتا ہے اڑا دیتا ہے
اب تو عادی سا ہوا ہوں میں غموں کو سہتے
صبر لگ کے گلے مجھ کو ہی رلا دیتا ہے
دستِ شفقت نہ رہا باپ کا سر پر میرے
کوئی تو ہے جو مجھے اب بھی دعا دیتا ہے
جب بھی محسوس ہوئی کوئی کمی بھی مجھ کو
میرا ماضی مجھے آئینہ دکھا دیتا ہے
روز کہتا ہوں کہ بن جاؤں زمانے جیسا
روز اندر سے کوئی شور مچا دیتا ہے
میں جنہیں روز جگاتا ہوں قلم سے اپنے
دے کے تلوار انہیں کون سلا دیتا ہے
کون ہوتا ہے برے وقت میں اپنا ارشیؔ
پیڑ سوکھے ہوئے پتوں کو گرا دیتا ہے
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
رہے تھے مانگتے جس کو ہم اک دعا کی طرح
رہے تھے مانگتے جس کو ہم اک دعا کی طرح
ہمارے ساتھ رہا وہ مگر سزا کی طرح
ہمارے نام جو اس نے لکھا تھا پہلا خط
ہمیں تو درد میں بھی وہ ملا شفا کی طرح
وہ ایک بات جو ہم نے کبھی کہی ہی نہیں
تمام شہر میں پھیلی ہے کیوں وبا کی طرح
عذاب عشق میں ہم نے بہت سے جھیلے ہیں
خدا کرے نہ ملے کوئی بے وفا کی طرح
کبھی تجھے بھی ضرورت پڑے دعاؤں کی
میں پھر رہا ہوں ترے شہر میں گدا کی طرح
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
ہماری ذات میں اتنی تو پارسائی نہ تھی
کوئی تو بات تھی تجھ کو کبھی سنائی نہ تھی
یہ ایک بات ترے دل میں کیوں سمائی نہ تھی
شریک جرم تھے میرے وہ سب رہا بھی ہوئے
مرے نصیب میں لیکن کوئی رہائی نہ تھی
ستارے توڑ کے لانے کی جانے ضد کیوں تھی
ہمارے پاس تو ایسی کوئی خدائی نہ تھی
ملا تھا جب بھی وہ الجھا ہوا سا رہتا تھا
کوئی تو بات تھی اب تک ہمیں بتائی نہ تھی
وہی تو شہر میں تھا ایک میرے مطلب کا
ملال تو یہ تھا اس تک مری رسائی نہ تھی
ہمارے پہلو میں کیوں آج آکے بیٹھا تھا
ہماری ذات میں اتنی تو پارسائی نہ تھی
کیوں ایک مصرعہ ترا ارشیؔ جا بجا پہنچا
غزل تو لکھی تھی تو نے مگر سنائی نہ تھی
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
اس پہ کچھ راز تمہارے بھی چھپا رکھے ہیں
جس کی راہوں میں کبھی ہم نے بچھائیں پلکیں
اس نے اس راہ میں اب خار بچھا رکھے ہیں
جو بھی دشمن تھے مرے لوگ زمانے بھر میں
اس نے ہمدرد وہی اپنے بنا رکھے ہیں
ہائے اک بار بھی آنکھیں نہ ہوئیں نم ان کی
ہم نے دکھڑے تو بہت ان کو سنا رکھے ہیں
اس کے سینے میں جو پوشیدہ رہے تھے اب تک
اس نے وہ راز بھی ہم کو ہی بتا رکھے ہیں
وہ جو تحفے میں ملے تھے کبھی ان سے ہم کو
ہم نے وہ پھول کتابوں میں سُکھا رکھے ہیں
جن کو بہنا تھا جدائی پہ کسی کی ارشیؔ
ہم نے وہ اشک بھی آنکھوں میں سجا رکھے ہیں
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
پریشانی
"ممکن ہے کہ اس بارمصیبت بھی بڑی ہو"
کھولے کہیں باہیں کوئی مشکل بھی کھڑی ہو
اس وقت جدائی کا عجب خوف تھا طاری
محسوس یوں ہوتا تھا کہ بس موت کھڑی ہو
چاہیں بھی تو اک پل کو نہ مل پائیں ہم ان سے
پیروں میں ہمارے کوئی زنجیر پڑی ہو
اِس آس پہ کل شام گذاری تھی وہاں پر
کھڑکی میں اُسی آج بھی شاید وہ کھڑی ہو
محسوس یہ ہوتا ہے کبھی ہم کو بھی ارشیؔ
پاکیزہ کوئی چیز غلاظت میں پڑی ہو
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
مایوس مت ہونا
ابھی مایوس مت ہونا نہ تم یوں حوصلہ ہارو
ابھی تو سحر ہونی ہے اندھیروں کو بھی چھٹنا ہے
ابھی تو جنگ جاری ہے ابھی یہ سوچنا کیسا
اگر ہم ہار جائیں تو ہمارا کیا بنے گا پھر
اگر یہ حوصلہ ٹوٹا تو پھر ہم ہار جائیں گے
ابھی ثابت قدم رہنا ضروری ہے مرے لوگو
توکل تو ہے اللہ پر مگر محتاط رہنا ہے
شکست اس کا مقدر ہے ہماری جیت ہونی ہے
وبا سے جان چھوٹے گی وطن کی دیکھنا جلدی
ہو گی یوں زندگی پھر سے رواں تم دیکھنا جلدی
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
امید
زخم ِامید بھر گیا شاید
درد حد سے گذر گیا شاید
تھا دل و جاں سے بھی پیارا وہ
میرے اندر جو مر گیا شاید
اب تو ملنے بھی گھر نہیں آتا
وہ محبت سے ڈر گیا شاید
اپنا گھر مجھ کو اب نہیں ملتا
ہو کے مایوس گر گیا شاید
کیوں اب اک آنکھ بھی نہیں بھاتا
میری نظروں سے گر گیا شاید
وعدہ کر کے بھی وہ نہیں آیا
اپنے وعدے سے پھر گیا شاید
میرے شانوں پہ سر کو رکھا تھا
مرنے والا تھا مر گیا شاید
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
سرشت
تجھے میں چھوڑ دوں یہ سوچنا حماقت ہے
"مِری سرشت میں دھوکہ نہیں محبت ہے "
میں جانتا تھا وہ اک روز چھوڑ جائے گی
یوں اس کا چھوڑ کے جانا پرانی عادت ہے
ذرا سی دیر کو آیا ہوں سوچتے کیا ہو
مرے نصیب میں ہر روز ایک ہجرت ہے
زمانے بھر کے دکھوں کو سمیٹ لایا ہوں
ملی خوشی نہ کہیں بس یہ ہی شکایت ہے
بچھڑ گیا جو وہ تو بات یہ سمجھ آئی
کسی کا چھوڑ کے جانا بھی اک قیامت ہے
ہمارے پیار کا جادو نہیں چلا اس پر
بھرا زباں میں ہے زہر اور ڈسنا فطرت ہے
ہمیں بلانا نہ محفل میں یہ اجازت ہے
ہمارے نام سے سب کو یہاں شکایت ہے
تمام شکوے گلے آج دور کر دیں گے
چلے بھی آؤ کہ اب دیر تک فراغت ہے
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
ماں
بچ جاتا تھا کتنی میں جفاؤں سے خطا سے
محفوظ وہ کر دیتی تھی ہر رنج و بلا سے
دیتی تھی پریشانی میں وہ کتنے دلا سے
تقدیر بدل جاتی تھی پھر ماں کی دعا سے
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
تعویذ
درد بڑھتا ہے تو فوراً ہی دوا کرتے ہیں
اور کچھ بھی نہیں ہم اس کے سوا کرتے ہیں
کوئی تعویذ بنا دے کہ سبب بن جائے
ان سے ملنے کی تو ہم روز دعا کرتے ہیں
کیسے کہدیں کہ تجھے قید کیا تھا ہم نے
تیرے صدقے میں پرندوں کو رہا کرتے ہیں
وہ تو اپنا تھا اسے کیسے بھلا دکھ دیتے
ہم تو دشمن سے بھی ہنس ہنس کے ملا کرتے ہیں
تم کو آتے ہیں نظر جو یہاں مخلص اکثر
زہر ہوتا ہے زباں میں وہ ڈسا کرتے ہیں
عشق نے ایسی کرامت کی عطا ہے ہم کو
ہم فقیروں کے لیے لوگ دعا کرتے ہیں
بھول بیٹھا ہے زمانے کے غموں کو ارشیؔ
خود کی ٹھوکر سے بھی تو لوگ گرا کرتے ہیں
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
مجھ کو اتنا تو معتبر کردے
مجھ کو اتنا تو معتبر کردے
آساں میرا یہ اب سفر کر دے
دید ہوتی رہے مجھے انﷺ کی
زندگی میری یوں بسر کر دے
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
خواہش
کچھ تو مجھ پر بھی تُو نظر کر دے
" زِیر ہوں میں مجھے زَبر کر دے "
چند لفظوں میں جو سمجھ آئے
بات اتنی تو مختصر کردے
دل میں اپنے مجھے بسا لے وہ
دل کو اس کے تو میرا گھر کر دے
لوگ سچے یہاں پہ جو بھی ہیں
ان کو میرا تو ہمسفر کر دے
جا مجھے چھوڑ کر چلی جا تو
قصہ یہ بھی تو مختصر کر دے
جس نے برباد کر دیا مجھ کو
مولا اس کو بھی در بدر کر دے
میری ہو جائے بد دعا یہ غلط
مولا اس کو بھی معتبر کر دے
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
آرزو
مجھ کو اتنا تو معتبر کردے
اپنے آنے کی بس خبر کر دے
میرے لفظوں کو تو زباں دے کر
میرے لکھے کو تو امر کر دے
اے خدا دیکھ لوں یہ میں بھی اب
اس کو میرا تو منتظر کر دے
اس سے ملنے کا کوئی رستہ ہو
ہجر کو اس کے مختصر کر دے
بات ایسی کرے یہاں کوئی
ختم دل کا مرے جو ڈر کردے
ہوش مجھ کو نہیں رہا باقی
بات میری تو در گزر کر دے
بات ایسی بھی اب نہیں ارشیؔ
کوئی چپکے سے جو خبر کر دے
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
مقدر
جس کو تھا جتنا پیار وہ سب نے جتا لیا
دیپک کی مثل مجھ کومحبت نے کھا لیا
سورج مرے جو حصے کا تھا وہ بھی لے گئے
سب نے ہی اونچا گھر یہاں اپنا بنا لیا
رہتے تھے سب جہاں کبھی کس میل جول سے
ظالم نے آج اس کو نشانہ بنا لیا
وہ بھی چلی گئی مجھے یوں چھوڑ کر یہاں
جس کے لیے جہان کو دشمن بنا لیا
ہم کو یہاں پہ پیار کی ایسی سزا ملی
اشکوں کو اپنی آنکھ میں ایسے سجا لیا
کچھ دیر ہی تو الجھے تھے حالات سے یہاں
تم نے بھی بس اسی کو بہانا بنا لیا
ارشیؔ جہاں میں اور کوئی دوسرا نہیں
تم نے بھی تو ہجر کو مقدر بنا لیا
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
محبت
آواز دے کر آج یہ کس نے بلا لیا
بجھتا ہوا چراغ تھا پھر سے جلا لیا
مانند اک شجر کے کبھی میں کھڑا تھا جو
دیمک کی مثل مجھ کو محبت نے کھا لیا
ہم نے جو ان کا نام لیا کیا گناہ کیا
کیوں ہاتھ میں سبھی نے ہے پتھر اٹھالیا
جیتے جی ہم سے آکے کبھی مل نہ وہ سکا
کاندھے پہ آج اس نے جنازہ اٹھالیا
حجت تھیں جتنی درمیاں وہ بھی ختم ہوئیں
سینے سے اپنے آج جو ہم کو لگا لیا
ایسا تھا وہ چراغ جو طوفاں سے لڑ گیا
اس کو خود اپنے گھر کی ہوا نے بجھا لیا
کل تک جہاں تھے ڈیرے محبت کے ہر جگہ
نفرت نے آج اس کو ٹھکانہ بنا لیا
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
نایاب پتھر
سنگ باری کے بھی اسباب نکل آتے ہیں
" بعض پتھر بڑے نایاب نکل آتے ہیں"
جب بھی جاتا ہوں کبھی اپنے پرانے گھر میں
میں نے دفنائے تھے جو خواب نکل آتے ہیں
جب بھی سوچا کہ کبھی بھی نہ ملوں گا ان سے
ان سے ملنے کے کچھ اسباب نکل آتے ہیں
جب بھی دیکھا ہے پسِ پردہ تو دشمن سارے
میرے اپنے سبھی احباب نکل آتے ہیں
تو نے سمجھا تھا کہ پتھر کی کوئی مورت ہوں
میری آنکھوں سے بھی سیلاب نکل آتے ہیں
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
اردو
یہ بات میری سن لیں ذرا سب دھیان سے
تسکین مجھ کو ملتی ہے اُردو زبان سے
رومن میں لکھا نام اسے اُردو دے دیا
یہ کیا مذاق ہے مری اُردو زبان سے
اردو کی بات ہوتی ہے اس شہر میں مرے
خائف ہیں کچھ ابھی بھی یوں اس کی اڑان سے
چاہو اگر کہ بچے بھی تہذیب سیکھ لیں
رغبت دلاؤ پھر انہیں اُردو زبان سے
نظریں جھکا کے ملتے ہیں اپنے بڑوں سے ہم
سیکھا ہے یہ سلیقہ بھی اُردو زبان سے
Muhammad Arshad Qureshi
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets