آئے گی ‘ روشنی کو آنا ہے
یہ اٹل ہے کہ شب کو جانا ہے
یہ کمال اب ہمیں دکھانا ہے
آندھیوں میں دیا جلانا ہے
اپنا حق مانگتے ہیں کانٹے بھی
قرض پھولوں کا بھی چکانا ہے
ان تضادات سے نہ ڈر کہ چمن
آب و آتش کا کارخانہ ہے
اک نئ رت کی آس میں ہم کو
خشک پیڑوں کو بھی بچانا ہے
آج پھر پتھروں ی بستی میں
ہم کو آئینہ لے کے جانا ہے