ادھوری خواہشیں اپنی سب خواب افسانے ہوئے
اب تو دل لگی کے سبھی باب پرانے ہوئے
جب وہ تھا تو پھول ہی پھول تھے چہار سو
اس کے جاتے ہی چمن بھی ویرانے ہوئے
مجھے آج بھی احترام ہے اسکی خواہش کا
اس جاتے سمے کہا تھا ہم آج بیگانے ہوئے
شمع روشن ہے آج بھی کل ہی کی طرح
جل کر راکھ تو میری جاں پروانے ہوئے
پل بھر میں توڑ گیا وہ سارے ہی رشتے
ختم کتنے ہی برسوں کے یارانے ہوئے
کون سمجھائے اس پاگل دل کو واجد
کہ اسے بھولے ہوئےان کو زمانے ہوئے