اس سے مراسم ہوۓ فسانے کی طرح
قصہ جیسے کسی دور پرانے کی طرح
وہ میرا تھا میرا تھا کبھی یوں
متاع ء جاں کسی خزانے کی طرح
رو برو بھی رہا میرے وہ سدا
قربتوں میں بھی مجھے گنوانے کی طرح
اس سے فرقت بھی گوارہ تھی مجھے کب
روٹھنا بھی اس سے تھا منانے کی طرح
ہم نے لبادہ بھلانے کا چڑھا رکھا ہے
خود کو خود ہی آزمانے کی طرح
امکان ء تجدید ء وفا سنبھالے ہیں ابھی
خواب جیسے کسی مفلس کے سجانے کی طرح
حال لوگوں کی وفاؤں کا نہ پوچھو ہم سے
لکھتے ہیں محبت بھی مٹانے کی طرح
جرم ء محبت کی سزا بھی عجب تھی
ترک ء تعلق بھی رہا اس سے نبھانے کی طرح
آؤ آج کریں مل کے پھر تجدید ء وفا
بجھتے ہوۓ چراغوں کو جلانے کی طرح
دل چاہتا ہے کسی روز کہ عنبر
ہم بھی ہو جائیں زمانے کی طرح