اگرچہ دور رہتے ہیں ہر ایک مطلبی سے ہم
بگاڑتے نہیں جہاں میں پر کبھی ، کسی سے ہم
سکندری کا خوف نے دبے ہیں قیصری سے ہم
ہیں سرخرو جہان میں خدا کی بندگی سے ہم
جو کارواں بچھڑ گیا تو گلستاں اجڑ گیا
تماشا بن گئے جہاں میں تیری دل لگی سے ہم
لٹائی جان ہم نے تیری شوخیوں کو دیکھ کر
کہ دل کو ہار بیٹھے اس ادائے دلبری سے ہم
بسی دل و نگاہ میں، ہوس کھڑی تھی راہ میں
ہوئے ہیں دور دیکھئے ! شعور و آگی سے ہم
وفاؤں کا صلا ملا ، لو ، زخم دل ہرا ہوا
جو منہ چھپا چھپا کے رو رہے ہیں بیکسی سے ہم
دعا کرو نہ ماند ہوں یہ میکدے کی رونقیں
سکون پا رہے ہیں اس بہار سرمدی سے ہم
بھلا جہاں میں روشنی کے ہم خلاف کب ہوئے ؟
لڑے ہوئے ہیں رومی ! پر شعاع مغربی سے ہم